جمعیۃ علماء ہند۔ ایک مختصرتعارف
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا چراغ جب ٹمٹمانے لگا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے بال و پر پیدا کر لئے اور ہندوستان کی حکمرانی کا تانا بانا بننے لگے تو اسی وقت سے ہندوستان کے علماء کرام کی جماعت میدان عمل میں آگئی۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے والی افغانستان سے مراسلت کی،اور بالآخر 1803میں جب مغل فرماں رواں شاہ عالم کو تخت شاہی سے بے دخل کرکے ایسٹ انڈیا کمپنی نے قلعہ معلیٰ سے یہ اعلان کردیا کہ ”خلق خدا کی،ملک بادشاہ کا،حکم کمپنی بہادر کا“تو اس وقت سے عملی طور پر ہندوستان غلام ہوگیا۔اس صورتحال کے مقابلے کے لئے جو آواز سب سے پہلے بلند ہوئی وہ اسی عالم ربانی کے فرزند ارجمند اور مدرسہ رحیمیہ کے شیخ الحدیث شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی آواز تھی،جنہوں نے سب سے پہلے تحریک آزادی کا صور پھونکا اور انگریزوں کی مخالفت کے لئے فتویٰ صادر کیا۔حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی صدا پر ملک کے گوشے گوشے سے ہزاروں علماء کرام نے لبیک کہا،اور تحریک آزادی کی جنگ چھیڑدی،1820میں شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے بھتیجے شاہ اسماعیل شہیدؒ اور ان کے پیر ومرشد سید احمد شہید ؒنے علم جہاد بلند کیا اور 1831میں علماء کرام کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ بالا کوٹ کی سر زمین کو اپنے خوان سے سیراب کیا۔ پھر علماء صادق پور میدان میں اترے اور ہزاروں کی تعداد میں شہادت سے سرفراز ہوئے،مگر تحریک آزادی کو سرد نہیں پڑنے دیا۔1857میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ اور ان کے خلفاء مولانارشید احمد گنگوہیؒ،
مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے اس محاذ کو سنبھالا،اور ہزاروں علماء شہید ہوئے،بہتوں کو ہجرت کرنی پڑی،مگر اس سلسلہ مقاومت کو ترک نہیں کیا،اوران کے بعد ان کے جانشین شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے تحریک ریشمی رومال کا آغاز کیا۔اور اپنے رفقاء و تلامذہ مولانا بر کت اللہ بھوپالی اور مولانا عبید اللہ سندھی کی معاونت سے کابل میں پہلی جلا وطن حکومت کی بنیاد رکھی، اس سو سالہ عرصہ میں صرف علماء کرام کی ہی مقدس جماعت نے تحریک آزادی کی قیادت کی،مگر جنگ عظیم اول کے بعد حالات نے یکسر رخ بدل دیا اور یہ ماحول بن گیا کہ مشترکہ جد و جہد کے بغیر یہ تحریک نہیں چلائی جا سکتی ہے،چنانچہ اسی پس منظر میں 1919میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں لایا گیا۔۸۲/ دسمبر ۹۱۹۱ء کو اس کا باقاعدہ پہلا اجلاس امرتسر میں زیر صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی ؒ منعقد ہوا،اور مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ اس کے پہلے صدراورمولانا احمد سعید صاحب دہلویؒ جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس۰۲۹۱ء میں اس کے فکری رہنما حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کی صدارت میں دہلی میں منعقد ہوا،جس میں ترکِ موالات کا وہ اہم فیصلہ کیا گیا جس کے مطابق انگریزوں کے دیئے ہوئے تمام سرکاری خطابات،عہدے،کونسل کی ممبری،فوجی ملازمت ترک کرنا نیز انگلستان سے تجارتی تعلقات ختم کرنا،سرکاری تعلیم اور عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کے بائیکاٹ اور سرکاری امداد سے پر ہیزجیسے تاریخی نوعیت کے فیصلے کئے گئے،اور اس کے دوسرے سال نومبر ۱۲۹۱ء میں ترکِ موالات کا فتویٰ دوبارہ شائع کیا گیا جس میں ولایتی کپڑوں،سرکاری نوکریوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے برطانوی معاشیات پر گہری چوٹ پہونچائی گئی۔اور حالات کے لحاظ سے جمعیۃ علماء ہند کا یہ قافلہ دن بدن آگے بڑھتا گیا اور اس نے ملک کی آزادی میں ہراول دستہ کا کام انجام دیا۔ملک کی آزادی اور اس کی بد بختانہ تقسیم کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے مسلمانان ِہند کی سرگرم اور فعال سیاسی قیادت سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور اپنے دائرہ کار کو مسلمانان ہندکی دینی ملی اور عام باشندگان ملک کی رفاہی خدمات تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا،جس پر وہ آج بھی پوری پامردی کے ساتھ گامزن ہے۔
٭ترکِ موالات یا عدم ِتعاون کا فتویٰ: جس کی پاداش میں جمعیۃ علماء ہند کے کارکنان کو سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا،اور حضرت شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ(صدر جمعیۃ علماء ہند) پر وہ تاریخی مقدمہ چلا جو کراچی کے مقدمہ کے نام سے مشہور ہے٭ مسلمانوں کے دستوری مطالبات کا خاکہ: ۸۲۹۱ء میں کانگریس کی رہنمائی میں آل پارٹیز نے ہندوستان کے لئے دستور حکومت کا ایک خاکہ تیار کیا،جو نہرو رپورٹ کے نام سے مشہور ہے۔جمعیۃ علماء ہند مسلمانوں کی وہ واحد جماعت تھی جس نے اس رپورٹ پر ملکی اور اسلامی مفاد کو پیش نظر رکھ کر ایک تنقیدی رپورٹ تیار کی ٭تحریک امارت ِ شرعیہ فی الہند:جمعیۃ علماء ہند کی تائید اور کوشش سے صوبہئ بہار و اڑیسہ میں امارتِ شرعیہ کا نظام شروع ہوا٭شرعی نصب العین کے مطابق قوم اور ملک کی مکمل آزادی:جمعیۃ علماء ہند نے سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ ہندوستان کی مکمل آزادی نہایت ضروری اور لازم ہے،اور اس کی آزادی کی جد وجہد ایک اہم ملکی اور مذہبی فریضہ ہے۔ جمعیۃ علماء کے اس فیصلہ کے بعد کانگریس اور دیگر ملکی اور اسلامی انجمنوں نے بھی اس نصب العین کا اعلان کیا ٭شرعی حدود کے مطابق غیر مسلم برادران ِ وطن کے ساتھ ہمدردی و اتفاق کے تعلقات کا قیام:مسلمانوں میں جمہوری طریقہئ کار کے تحت اہلِ وطن کے ساتھ مشترکہ جد و جہد کی حامی اولین اور طاقتور ترین جماعت جمعیۃ علماء ہند ہے۔جس نے اولِ روز سے متحدہ قومیت اور اس کے طریقہ ئ کارکا اصول اپنا رکھا ہے٭مسلم شعار،اوقاف،معابد و ماٰثر اور مدارس دینیہ کی تحفظ کے لئے تدابیر اختیار کرنانیز مسلمان طلبہ و طالبات میں دینی تعلیم کے فروغ کے لئے دینی تعلیمی بورڈ کا قیام ٭فرقہ وارانہ یکجہتی کے فروغ کی کوشش،فساد متاثرین اور قدرتی آفات کے شکار لوگوں کی باز آبادکاری،ہونہار طلبہ و طالبات کی تعلیمی امداد،سلاخوں کے پیچھے مقید بے قصور ملزموں کی قانونی پیروی،حق شہریت سے محروم کئے گئے خاندانوں کے لئے قانونی چارہ جوئی وغیرہ جمعیۃ علماء ہند کے خاص کارنامے ہیں،اور جمہوریہ ہند میں جمعیۃ علماء ہند مسلمانوں کی سب سے بڑی اور معتبر تنظیم سمجھی جاتی ہے۔